اک وجد ہے جو طاری ہے
کیسی بے وجہ کی خماری ہے
ُاس نے پہلو میں بیٹھ کر کہا
تیری ذات مجھ پر اب بھاری ہے
خوابوں کے آنگن سے کیسی نکلتی
نا تیری ، نا میری وہ بستی تو ہماری ہے
اک شوق ہے جو ختم ہی نہیں ہوا
وہی ُدعا ہے جو لبوں پہ جاری ہے
میری محبت پر ُاسے ترس نا آیا
وہ کاٹتا رہا جڑیں جیسے ہاتھ میں آری ہے
نفرتوں میں کچھ نہیں رکھا سمجھ جاؤ
اگر آج میری ، تو کل تمہاری بھی باری ہے
وہ ہر قدم پر ترک تعلق کرتا رہا مگر
میں نے بھی کہا لکی بس تمہاری ہے