وہ جب کبھی نقاب اپنے رخ سے ہٹاتی ہے
لاکھوں بجلیاں میرے دل پہ وہ گراتی ہے
میری جانب دیکھ کرجب وہ مسکراتی ہے
پھرمجھے دنیا کی ہرشے بھول جاتی ہے
مجھےوہ کوئی گلاب کی پنکھڑی لگتی ہے
جب بھی اپنے رسیلےلبوں کو وہ ہلاتی ہے
سپنوں میں تو آ کرمجھے ہر روز ستاتی ہے
دیکھنا ہے کہ حقیقت میں کب قریب آتی ہے
میرےکانوں اس کی آواز آتی ہےآجا پردیسی
دیکھ تیری ۔ ۔ ۔ ۔تجھے کتنے پیارسےبلاتی ہے