وہ جو اپنے تھے وہی ہو گئے ہرجائی بھی
بات پیشانی پہ لکھی ہوئی پیش آئی بھی
دل تو پہلے ہی تھا محصور غم تنہائی
اس پہ دھرنا دئے بیٹھی ہے یہ پروائی بھی
جس طرف رخ ہو ہوا کا یہ برستی ہے وہیں
ابر کی طرح سے ہوتی ہے شناسائی بھی
دل کو رہتی بھی ہے اب محفل یاراں کی تلاش
اور طبیعت ہے کہ اس بزم میں گھبرائی بھی