وہ جو کل تک وفا کا پیکر تھا
Poet: مرید باقر انصاری By: مرید باقر انصاری, Karachiوہ جو کل تک وفا کا پیکر تھا
آج کیوں اس کے ہاتھ پتھر تھا
اس لئے اس پہ آن دل ٹھہرا
وہ بھرے شہر سے جو ہٹ کر تھا
سر پہ باندھے کفن میں چل نکلا
سامنے گو عدو کا لشکر تھا
ترس پانی تجھے نہیں آیا
ہاۓ کتنا پیاسہ اصغر تھا
غمزدہ مجھ کو روتے ہیں یونہی
غم کے ماروں کا میں قلندر تھا
یاد آۓ تو خوں رلاۓ مجھے
اس سے بچھڑن کا وہ جو منظر تھا
میرا بن کر جو ڈس گیا مجھ کو
آدمی تھا یا کوئی اجگر تھا
لمس اس کا بتا گیا مجھ کو
پھول چہرہ بھی کتنا پتھر تھا
مجھ سے بڑھ کر ہیں درد کس کو ملے
کون مجھ سے بڑا سکندر تھا
چھوڑ کر وہ گیا مجھے جس دن
وہ بھی دن میرے لیئے محشر تھا
کوئی بھی میرا بن نہیں پایا
عیب ایسا تو میرے اندر تھا
آج کل کیوں نظر نہیں آتا
وہ جو مل جاتا مجھ کو اکثر تھا
اجنبی ہوں میں آج اس کلۓ
کل تلک جس کا میں ہی دلبر تھا
پیار بن کر جو آج ابھرا ہے
وہ تو صدیوں سے دل کے اندر تھا
درد میں یوں بھی خوش ہوں میں باقر
درد سہنا مرا مقدر تھا






