وہ جو کل تک وفا کا پیکر تھا
آج کیوں اس کے ہاتھ پتھر تھا
اس لئے اس پہ آن دل ٹھہرا
وہ بھرے شہر سے جو ہٹ کر تھا
سر پہ باندھے کفن میں چل نکلا
سامنے گو عدو کا لشکر تھا
ترس پانی تجھے نہیں آیا
ہاۓ کتنا پیاسہ اصغر تھا
غمزدہ مجھ کو روتے ہیں یونہی
غم کے ماروں کا میں قلندر تھا
یاد آۓ تو خوں رلاۓ مجھے
اس سے بچھڑن کا وہ جو منظر تھا
میرا بن کر جو ڈس گیا مجھ کو
آدمی تھا یا کوئی اجگر تھا
لمس اس کا بتا گیا مجھ کو
پھول چہرہ بھی کتنا پتھر تھا
مجھ سے بڑھ کر ہیں درد کس کو ملے
کون مجھ سے بڑا سکندر تھا
چھوڑ کر وہ گیا مجھے جس دن
وہ بھی دن میرے لیئے محشر تھا
کوئی بھی میرا بن نہیں پایا
عیب ایسا تو میرے اندر تھا
آج کل کیوں نظر نہیں آتا
وہ جو مل جاتا مجھ کو اکثر تھا
اجنبی ہوں میں آج اس کلۓ
کل تلک جس کا میں ہی دلبر تھا
پیار بن کر جو آج ابھرا ہے
وہ تو صدیوں سے دل کے اندر تھا
درد میں یوں بھی خوش ہوں میں باقر
درد سہنا مرا مقدر تھا