پہلے ملتی تھی جو بے وفا نہیں ملتی
شائد ہے وہ اس قدر خفا نہیں ملتی
ممکن ہے کہ نابینا کو یہ بھی خبر نہیں
لب دریا کبھی پانی کی صدا نہیں ملتی
اب کیا کہوں میں قصہ بے وفائی کا
میرے کتھا سے اس کی کتھا نہیں ملتی
باتوں کی تیری خوشبو ہوا لے اڑی کہاں؟
پوچھوں گا مگر باد صبا نہیں ملتی
ایماں مجھے روکے وہ جوانی نہیں رہی
کافر مجھے کھینچے وہ ادا نہیں ملتی