دعا تھی ، صدا تھی
کوئی سمجھے تو عطا تھی
خشبوں تھی ، سما تھے
تو نہیں تو سب ویران تھے
آنکھ میں خواب تھے
خواب میں تعبیر تھی
پھر کیوں ُاسی سے محبت ہوئی
جس کے پاؤں میں
مجبوریوں کی زنجیر تھی
ہاتھ تھے ، لکیر تھی
نجانے میری قسمت بھی
کیوں اتنی فقیر تھی
تڑپ تھی تڑپ ہیں
وہ آیا خود ملنے مجھ سے
وہ دن تھا یا پھر عید تھی
خزاں تھی بہار تھی
راستے میں کیسی دیوار تھی
یوہی بھیگ گئی میری آنکھیں
شاید تھک گئی میری ذات تھی
ُاس نے تو ہاتھ ہی بڑھایا تھا لکی
کہا خبر تھی کہ پیچھے بارات تھی