پھر رات رہی تاروں سے تیری باتیں کرتی
پھر رات گزری تیرے نام کا چراغاں کیے ہوئے
اک ضدی یقین تو آئے گا لوٹ کے
اچھے بھلے دل کو ہوں نادان کیے ہوئے
اب بھی تجھے شعروں میں تصویر کرتی ہوں
اب بھی یاد ہیں تیرے عہدوپیماں کیے ہوئے
نیند سے تو یہ رتجگے اچھے ساتھی
ورنہ تیرے خواب تھے پریشاں کیے ہوئے
نڈھال ہوں تیرے انتظار میں کہ اپنی بھی خبر نہیں
دن رات ہیں گزرتے ایسے نقصاں کیے ہوئے
بہت افسردہ ہیں میرے گھر کے درودیوار
رونق آشیاں کو ہوں ویراں کیے ہوئے
تو نہیں مگر پھر بھی ہے ہر لحظہ مجھ میں
میں تجھ کو ہوں خود میں میری جاں کیے ہوئے