پھول تھے رنگ تھے لمحوں کی صباحت ہم تھے
ایسے زندہ تھے کہ جینے کی علامت ہم تھے
سب خرد مند بنے پھرتے ہیں ہر محفل میں
اس تیرے شہر میں اک صاحبِ وحشت ہم تھے
نام بخشا ہے تجھے کس کے دفورِ غم نے
گر کوئی تھا تو تیرے مجرم شہرت ہم تھے
اب کسی اور کے ہاتھوں میں تیرا ہاتھ سہی
یہ الگ بات کبھی اہلِ رفاقت ہم تھے
رتجگوں میں تیری یاد آئی تو احساس ہوا
تیری راتوں کا سکوں نیند کی راحت ہم تھے
اب تو خود اپنی ضرورت بھی نہیں ہے ہم کو
وہ بھی دن تھے کہ کبھی تیری ضرورت ہم تھے
دُھوپ کے دشت میں کتنا وہ ہمیں ڈھونڈتا تھا
اعتبار اس کے لئے اَبر کی صورت ہم تھے