پہلی بار جب میں نے تم کو
اپنی پہلی غزل سنائی
تو وہ سن کر
تم نے مجھ سے یہ کہا تھا
“اس میں اتنی مایوسی کیوں ہے“
اور میں نے یہ اصرار کیا تھا
کہ
اس دم کچھ حالات ہی یوں تھے
یہ نہ لکھتا تو
اور کیا لکھتا
“پر اب تو سب کچھ ٹھیک ہے نا
تو اب اس پر بھی کچھ لکھدیں“
اور میں نے یہ پیمان کیا تھا
کہ
اب جبکہ حالات سہل ہیں
میں بھی سب کچھ “ٹھیک “لکھوں گا
پر دیکھ لو جاناں میرے سخن میں
پھر مایوسی رنگ لے آئی ہے
حسرت و یاس کا بے کل چشمہ
میرے قلم سے پھوٹ رہا ہے