چپ کی دیواریں گرا دو، کچھ صدا پیدا کرو
خامشی میں بھی کوئی صورتِ وفا پیدا کرو
دل کی بستی ویران ہے اُس کے بغیر
یاد کی مٹی سے اب نقشِ دعا پیدا کرو
چاندنی میں اُس کی آہٹ گونجتی ہے رات بھر
تم تصور سے کوئی شامِ صبا پیدا کرو
رات کٹتی ہے فقط سانسوں کے خالی شور میں
تم مرے لہجے سے اک دردِ نیا پیدا کرو
حیرت ہے تمہارے اس انداز گفتگو پر
لب و لہجے میں اب عکسِ حیا پیدا کرو
پھول سے لفظوں میں اب خوشبو نہیں رہی
اس فضا میں تم کوئی نیا جذبہ پیدا کرو
عمر کاٹی ہے جو درد میں مبتلا ہو کر سائر
اُس نگاہِ درد سے جینے کی کوئی ادا پیدا کرو