کئی دیوانوں کے لابدی فسانے پہلے بھی سنے تھے
عشق سے نہ انحراف ہوا زمانے پہلے بھی سنے تھے
اُن کے چہرے پر آلائش بڑی دیرینہ پانے سے
ایک تسلسل ٹھہر گیا بہانے پہلے بھی سنے تھے
ان کو کہا بھی تھا کہ سنسان ہیں گلیاں نہ جایا کرو
دل کھونے والوں کے ھنگامے پہلے بھی سنے تھے
یہاں خلاف دستور بارسوُخی تو کہیں بھی نہیں ملتی
جرم پہ پردہ ڈل گیا! جرُمانے پہلے بھی سنے تھے
ہم اپنی حدوں کے لطف میں ناقص ہی رہہ گئے تھے
بس منزلوں کی تھی نزاکت ٹھکانے پہلے بھی سنے تھے
یہاں محبت کی شائستگی پر بھی قصیدہ بنا دیتے ہیں لوگ
کس نے کس کیلئے گائے کچھ ترانے پہلے بھی سنے تھے