کتنے دلکش ترے انداز ہوئے جاتے ھیں
اور نیناں بھی دغا باز ہوئے جاتے ھیں
آپ جتنے بھی ستم مجھ پہ کیا کرتے ھو
وہ مرے واسطے اعزاز ہوئے جاتے ھیں
اب تو لازم ہے کوئی اور مسیحا ڈھونڈوں
میرے حاسد ترے ہمراز ہوئے جاتے ھیں
کسی مخلص کسی مفلس کا نہیں نام یہاں
اور جو ظالم ہیں وہ ممتاز ہوئے جاتے ھیں
تم نے کب کس کو منایا انہیں معلوم نہیں
یہ تو خوش فہم ہیں ناراض ہوئے جاتے ہیں