کسی آستاں پہ آ کے مرا سر جھکا دیا ہے
یہ کیا مری وفاؤں کا تو نے صلہ دیا ہے
مری زندگی کہیں ہے تری زندگی کہیں ہے
تری یاد کا ہے آنگن ، مرے پیار کا دیا ہے
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست دشمن
رہِ عشق میں وفا نے یہ اچھا صلہ دیا ہے
میں نے مشکلوں سے سیکھا تری خواہشوں سے لڑنا
مری خواہشوں میں تو نے مرا دل جلا دیا ہے
تری داستانِ الفت ہے یہ داستانِ عبرت
"مری بے بسی پہ ہنس کر مرا غم بڑھا دیاہے"
یہ معاملے ہیں نازک جو تری رضا ہو تو کیا
مری سوچ سے بھی بڑھ کر یہ تو نے دغا دیا ہے
تُو بھی اپنے اُس جہاں کے وہاں گیت گا لے وشمہ
یہاں میرے اس چمن میں تو یہ گل کھلا دیا ہے