کس نے کہدیا کہ عدم وجوُد میں نہیں آیا
اس کا مزاج تو ابکہ ہر روُپ میں نہیں آیا
جن کی شوخیاں بھی سائے میں پلتی ہیں
وہ مجھ سے ملنے کبھی دھوُپ میں نہیں آیا
زندگی تو نام ہے فقط درد جھیلنے کا
جو ہمت ہار گیا وہ مشمول میں نہیں آیا
امید اور مفلسی انسان کے ساتھ ساتھ رہتی ہیں
عشق تو کبھی اپنے اصول میں نہیں آیا
بے آبروئی تو فقط اپنے کردار سے ہوتی ہے
حالانکہ یہ بھی شرط کبھی حقوق میں نہیں آیا
آج دن کا گذر کل سے بے لگاؤ ہے
وقت کا فساد کبھی معمول میں نہیں آیا