کچھ خواب بھی تھے ایسے کہ خواب ہی رہہ گئے
تیرے بچھڑنے کے بعد تو عذاب ہی رہہ گئے
میں میرے ہی مرضی کو پھر کہاں چھُو سکا
کئی لب خاموشاں وہ حجاب ہی رہہ گئے
ہر موسم نے گلستانوں پر رنج ڈھائے پھر بھی
کچھ اجڑے تو کچھ شاداب ہی رہہ گئے
تعین کیئے وعدے بدلیں تو لگتا ہے کہ
زندگی میں اب بھی جیسے مذاق ہی رہہ گئے
جتنی شب اتنے بڑے سپنے دیکھتا ہوں
گذری یادوں کے پَل پُرثبات ہی رہہ گئے
تیرے محبت کا پھر دلیل کیا دوں سنتوشؔ
میری ہر الجھن کے تو اسباب ہی رہہ گئے