کچھ خواب بھی تھے ایسے کہ خواب ہی رہہ گئے

Poet: Santosh Gomani By: Santosh Gomani, Mithi

کچھ خواب بھی تھے ایسے کہ خواب ہی رہہ گئے
تیرے بچھڑنے کے بعد تو عذاب ہی رہہ گئے

میں میرے ہی مرضی کو پھر کہاں چھُو سکا
کئی لب خاموشاں وہ حجاب ہی رہہ گئے

ہر موسم نے گلستانوں پر رنج ڈھائے پھر بھی
کچھ اجڑے تو کچھ شاداب ہی رہہ گئے

تعین کیئے وعدے بدلیں تو لگتا ہے کہ
زندگی میں اب بھی جیسے مذاق ہی رہہ گئے

جتنی شب اتنے بڑے سپنے دیکھتا ہوں
گذری یادوں کے پَل پُرثبات ہی رہہ گئے

تیرے محبت کا پھر دلیل کیا دوں سنتوشؔ
میری ہر الجھن کے تو اسباب ہی رہہ گئے

 

Rate it:
Views: 438
06 Feb, 2011