کچھ دام چاہئے نہ ہی نذرانہ چاہئے
اس کو تو روٹھنے کا بس بہانہ چاہئے
اُکتا گیا تھا یار یوں میرے مزاج سے
تھی ضد مری کہ پیار تو روزانہ چاہئے
شاید کبھی وہ بعد میں نہ مل سکے مجھے
اب کے ملے تو حد سے گزر جانا چاہئے
بس ایک شخص ہی وفا نبھاۓ عمر بھر
مجھ کو نہ روز روز کا یارانہ چاہئے
بےگھر ہیں پنچھیوں کو اڑا تُو نہ شاخ سے
آخر انہیں بھی کوئ آشیانہ چاہئے
کیسے جہاں کی بھیڑ میں کھولوں لبِ سخن
میرے تخیلات کو ویرانہ چاہئے
باقرؔ گنوا نہ زندگی فضول ہجر میں
جو بھول گیا اس کو بھول جانا چاہئے