کچھ پل کو ٹہر جاؤ ، یہ شام بڑی بوجھل ہے
مجھے چھوڑ کر نہ جاؤ ، کہ شام بڑی بوجھل ہے
دور آسمان پر پھیلی ، زرد شفق کی لالی
گہرے سرمئی بادلوں کی چادر اوڑھے
احساس دلاتی ہے ، یہ شام بڑی بوجھل ہے
نکھرے پانی پہ ، بکھری ڈھلتے سورج کی کرنیں
لبِ ساحل سے پلٹ کر ٹکراتی ہوئی لہریں
یہ شور مچاتی ہیں کہ شام بڑی بوجھل ہے
رنگ قوسِ قزح کے ہر طرف پھیلے ہیں
پھر بھی بے کیف سماں لگتا ہے
ہزار رنگ سجائے بھی یہ شام بڑی بوجھل ہے
تھوڑی ہی دیر ہے ہر گام اندھیرا ہوگا
دل میں پھر تیری ہی کی یادوں کا بسیرا ہوگا
یہی کچھ سوچ کر کے شام بڑی بوجھل ہے
کچھ پل کو ٹہر جاؤ ، یہ شام بڑی بوجھل ہے
مجھے چھوڑ کر نہ جاؤ ، کہ شام بڑی بوجھل ہے