کہاں کا لطف، مراسم میں گر جفا ہی نہیں
ستم نہ ہو تو محبت میں کچھ مزا ہی نہیں
لکھا گیا ہے مقدر میں شہرِ دل کے یہی
اجڑ گیا ہے جو اک بار، پھر بسا ہی نہیں
وہ اشک جس کو نہ دامن کوئی نصیب ہوا
وہ اشک ، گوہرِ نایاب میں ڈھلا ہی نہیں
تمہارے لوٹ کے آنے کی آس کیا ٹوٹی
پھر اس کے بعد دیا طاق پر دھرا ہی نہیں
جکڑ لیا ۔۔۔۔۔۔۔۔ کسی آسیب نے مرے دل کو
ہے کیسا شہرِ خموشاں ، کوئی صدا ہی نہیں
یہ زندگی بھی عجب رہ گزار ہے حسرت
بچھڑ گیا جو یہاں، پھر کبھی ملا ہی نہیں