کہاں ہو تم کہ شددت سے تمہارا انتظار کر رہی ہوں میں
راستہ دیکھتے دیکھتے خود کو بیقرار کر رہی ہوں میں
کر لیا آج روشن کمرہ خوشی سے میں نے
ساحل پر کھڑی آفتاب سے بات کر رہی ہوں میں
تجھے دیکھتے ہی کیا بھول جانے تھے سب شکویے
کتنی نادانی سے خود سے سوال کر رہی ہوں میں
تیرے چھونے کی دیر تھی کہ درد غائب ہو گیا
جس کی شفاء کے لیے مددت سے دعا کر رہی ہوں میں
میرے لبوں کی مسکان بھی کیا تم سے ہے ؟
یقین مانو سالوں سے ہسنے کی کوشش کر رہی ہوں میں
یہ کیا کہہ دیا اچانک سے تم نے
اک لمبی سانس لے کر اپنا حال بیان کر رہی ہوں میں
تم بھی وہی سوچ رہے ہو جو میرے دل میں ہیں
لیکن وہ بات کرنے میں پہل کر رہی ہوں میں