کیا پوچھتے ہو سبب اندھیروں کا
کرنوں پہ پہرہ ہے بادلوں کا
وہ چراغ جن میں لہوجلتا ہے
جانتا ہے وہ رخ ہواؤں کا
ان کے ہاتھ نہیں پڑنے والے در پ
ضرور ہو گا یہ کھیل ہواوں کا
کس کی آمد سے کھلبلی ہے
بہار آئ ہے؟ یا دھوکہ فضاؤں کا
گھر سجایا تھا جس ستم گر کیلئے
پاؤں پہ مہندی لگائے صلہ دیتے وفاؤں کا
سنا ہے غیر سے ملنے کی ہے تیاری
یوں نہ دے خالق صلہ میری خطاؤں کا
انا پرستی ہے یا خود غرضی ہے سب چپ ہیں
شہر جلتا ہے ان گونگے خداؤں کا
کوئ جان سے جاتا ہے تو جائے رضا
وہ باب کھول کے بیٹھے ہیں اپنی اداؤں کا