اگرچہ اُس نے کبھی دشمنی نہیں کی ہے
ستمگری میں بھی کو ئی کمی نہیں کی ہے
مرِی وفا کا صلہ کیوں جفا سے دیتے ہو
کیا ہے پیار ، کوئی نوکری نہیں کی ہے
جنہیں ہے اسقدر افسوس میرے لٹنے کا
انہی سے پوچھیئے کب رہز نی نہیں کی ہے
کب ہم نے پیار میں سر پر اُسے بٹھایا نہیں
کب اُسنے عشق میں دادا گری نہیں کی ہے
وہ دل دُکھا ہے کہ اِن پچھلی آ ندھیوں کے بعد
بجھا چراغ تو پھر روشنی نہیں کی ہے
ترے فراق میں زندہ تو ہوں مگر اے دوست
بسر سکون سے یہ زندگی نہیں کی ہے
نصیبِ دشمناں سرکار خیر یت تو ہے
بڑے دنوں سے کوئی شاعری نہیں کی ہے
یہ واقعہ ہے کہ خود اپنی ذات سے انور
ملا ضرور ہوں پر دوستی نہیں کی ہے