ہر ایک شخص سے میرا پتا جو کرتا ہے
مرا خیال ہے اب مجھ پہ وہ بھی مرتا ہے
گرجتے بادلوں میں حال اس کا کیا ہو گا
سنا ہے آج بھی وہ آندھیوں سے ڈرتا ہے
نظر تو اس کی مری طاق میں ہی رہتی ہے
وہ اب کے جب بھی مرے شہر سے گزرتا ہے
نجانے گرتے ہیں آنسو کیوں اس کی آنکھوں سے
وہ جب بھی آئینے کے سامنے نکھرتا ہے
اسے خبر ہی کہاں قبر میں پڑا ہے وہ
وہ اب کے جس کلۓ رات دن سنورتا ہے
میں کاش پہلے سے کچھ عرصہ مر گیا ہوتا
سنا ہے بعد مری مرگ مجھ پہ مرتا ہے
مزاج چاند نے باقرؔ ہے بدلا میرے بعد
شفق کی جھیل میں اب چاند بھی اترتا ہے