ہر زخم زخم تجھ کو پکارے تمام رات
سویا نہیں میں درد کے مارے تمام رات
آ جا کہ انتظار میں کب تک بھلا کوئی
مثلِ چراغِ راہ گزارے تمام رات
کتنا عجیب تھا ، مجھے بے چین دیکھ کر
اُڑتے رہے فلک پہ ستا رے تمام رات
تو بھی سکونِ قلب کو ترسے مرِی طرح
تو بھی تڑپ تڑپ کے گزارے تمام رات
کہہ دو اداس رُت سے مرِے ساتھ بیٹھ کر
زُلفِ شبِ سیاہ سنوارے تمام رات
لکھو گے میرا نام جو سپنوں کے پنکھ پر
جاگا کر یں گے نین تمہارے تمام رات
مثلِ چراغ ہی مجھے رہنے دے بزم میں
جلتا رہو ں گا ایک کنارے تمام رات
نوٹ۔ اس غزل کے ایک شعر کا مرکزی خیال کسی نامعلوم شاعر کے شعر سے ماخوز ہے