زندگی حیراں ھوں تجھ پہ اتنا
ملے اک اجنبی سے جو نہ تھا میرا اپنا
اُس کی قربت میں تھا سکوں اتنا
بھول گئ درد و غم نام و نشاں اپنا
وہ تھا درد کا تاجر اور میں بے آس بے سہارا
سکوت درد میں ملا بے لوث خسارہ اتنا
اُسے بھی پیار ھو مجھ سے یہ تھی دل کی خواہش
دُور رہ کر بھی سمجھا اُسے ہر پل اپنا
دل ناداں کی تسلی کو کافی ھے اک لفظ بھی “فائز“
جھوٹ ہی سہی مگر اک بار تو کہے مجھے ہمسفر اپنا