ہم تیری محبت سے گلہ تو نہیں کرتے
غم سارے زمانے کو ملا تو نہیں کرتے
یہ افسانہ نہیں یہ تو الم کی کہانی ہے
سارے لوگ زمانے کے یہ سنا تو کرتے
اب زخموں پہ مرہم کا کوئی اثر نہیں ہوتا
سمندر دریا سے کبھی بھرا تو نہیں کرتے
ترک الفت کی قسمیں بھلا کس نے نبھائی ہیں
کبھی رستے موجوں کے بدلا تو نہیں کرتے
درد کے ماروں کی بھی دوا ہے زمانے میں
زخم مگر دل کے روز سلہ تو نہیں کرتے
ملیں گے تمہیں اک دن اپنا یہ وعدہ ہے
جو محبت کرتے ہیں دور رہا تو نہیں کرتے
سجا کے تبسم اب دل راکھ بنا اپنا
سر عام شمع پہ جلا تو نہیں کرتے
وہ نام کیوں جانے زباں پہ آیا اشتیاق
ورنہ بات کبھی دل کی ہم کہا تو نہیں کرتے