یاد تیری ستانے لگی ہے مجھے
اور بتلاؤ جاں کیسے بھولوں تجھے
آنسو گر کر سیاہی یہ بننے لگے
اور کہنے لگی ہے زبانِ قلم
جان آجاو تم جان آ جاو تم
دہر میں جاناں اب تو اکیلا ہوں میں
جو سبھی کے لئے ہی سوتیلا ہوں میں
تیرے بعد اب کوئی پیار کرتا نہیں
تیری یادوں میں اکثر میں رہتا ہوں گم
جان آ جاو تم جان آ جاو تم
بھول کر آج میں سب کی سب رنجشیں
توڑ کر چل پڑا ہوں سبھی بندشیں
راستے میں مقدر سے الجھا ہوں میں
بس تجھے ملنے کے واسطے اے صنم
جان آ جاو تم جان آ جاو تم
اب کے محبوب آ تو مرے پاس آ
راستے کی دیواریں،صفیں چیر جا
مٹتے جائیں گے وہ خود بخود جعفری
اس جدائی میں دل پر جو آئے زخم
جان آ جاو تم جان آ جاو تم