یہ بات ہے دن چار کی
ایک عاشق ایک غم خوار کی
وہ نہ سمجھے ہمارے محبت
کمی نہ تھی اعتبار کی
یاد اس کو ہر پل کرنا
یہ عادت پے پیار کی
ساون آئے تو بہتے آنسو
یہ رونق ہے دلدار کی
کرتی محبت وہ مجھ سے اگر
یہ بات تھی وقار کی
بھول بھی جاؤں تو کیسے بھولوں
عادت ہے اب انکار کی
بہار آئی پھول کھلے
ہجرمیں خوشبو بیکار کی
عمر بھی اب ڈھلتی جائے
محبت کے اقرار کی