ترے بغیر ہوں زندہ مگر یہ حالت ہے
یہ آتی جاتی ہوئی سانس بھی اذیت ہے
میں زندگانی کے اب آخری پڑاؤ پہ ہوں
کہاں ہو تم کہ تمہاری مجھے ضرورت ہے
ترے بغیر بھی اک رات جی کے دیکھ لیا
ترے بغیر بھی یہ رات خوبصورت ہے
بدن کے سارے تقاضے تو ہو گئے پورے
مگر ابھی بھی تمہاری مجھے ضرورت ہے
ترے بغیر تو ممکن نہ تھا مرا جینا
ترے بغیر بھی زندہ ہوں مجھ کو حیرت ہے
اسی کی یاد ہے اب نور مشغلہ اپنا
وہ ایک شخص جسے بھولنے کی عادت ہے