نیند کے گہرے سمندر میں جہاں غرقاب تھا
ایک میں ساحل پہ تھا، سو ماہیِ بے آب تھا
کیا بتاؤں دوستو! اُن کے خیال آنے کا حال
جھلملاتی جھیل میں لرزاں کوئی مہتاب تھا
اُس نے جھٹکا اپنی بھیگی زلف کو اور اُس کے بعد
دور تک پھیلا ہوا سایوں کا اِک سیلاب تھا
سوچتا رہتا ہوں آنکھیں بند کرکے رات دن
میں نے دیکھا جو کھلی آنکھوں وہ کیسا خواب تھا
عمر گزری ساحلوں پر سیپیاں چنتے ہوئے
جس میں گوہر بھی ہو کوئی، وہ صدف نایاب تھا
دور سے ہوتا رہا جس پر ستارے کا گماں
جب قریب آیا تو وہ بھی کرمکِ شبِ تاب تھا
برسرِ محفل سبھی نے پا لیااعزازِ جام
ایک دیوانہ ترا نا واقفِ آداب تھا
میری کشتی کے لئے آغوش پھیلائے ہوئے
یا خدا کی ذات تھی یا حلقہ گرداب تھا
خواب کی مانند مجھ کو یاد آتا ہے قتیلؔ
دل کا یہ صحرا کبھی اک قریہ شاداب تھا