تو میں کر لوں یقین
تم میرے سامنے ہو
میرے ساتھ ہو
مجھے دیکھ رہے ہو
جیسے کوئی گلاب ہو
نظریں بھی نہیں ہٹاتے ہو
جیسے اس دنیا سے انجان ہو
تو میں کر لوں یقین
میری دعائیں رنگ لے آئی ہیں
بہت دور سے تمہیں
اپنے سنگ لے آئی ہیں
میرے آنسو خشک ہو گئے
ذرد پتوں پر پھول کھل گئے
میری کسی نیکی کے بدلے
مجھے تم مل گئے
تو میں کر لوں یقین
میرا نام تمہارے نام سے جڑ گیا
یہ دشمن زمانہ دوست بن گیا
جنہوں سے ُجدا کیا تھا
قدرت سے انہیں ہی
ملانے کا موقع دیا
میرا دل مسافر تھا
عشق سمندر میں
جیسے اک چاہنے والا سفینہ مل گیا
تو میں کر لوں یقین
یہ خواب نہیں حقیقت ہے
میری مددت کی
مسافتیوں کی منزل ہے
میری زندگی میں
خوشیوں کی آمد ہے
میرے سجنے سنوارنے کی عمر ہے
ادھوری کہانی کو
مکمل کرنے کی ضرورت ہے
تو میں کر لوں یقین