تپش سورج کی اوپر سے ٹھنڈی ہوا
اور دیکھوں نیلا فلک بھی ہو رہا ہے آج
کانٹوں سی زندگی ختم ہوئی
بہار کا پہلا گلاب کھل رہا ہے آج
تیرے وعدوں کی بقاء کا دن بھی آ گیا
سنا ہے کوئی وعدے وفا کر رہا ہے آج
تیرے لبوں کا ہلنا تھا کہ دل مچل گیا
نظریں جھکائے اک ارمان دستک کر رہا ہے آج
ٹوٹی چوڑیوں کو دیکھ کر کیا اندازہ لگاتے ہو
شرم سے خود میں کوئی مر رہا ہے آج
سرہانے رکھا تھا اک خواب سونے سے پہلے
وہ نیند میں مددت کے بعد بات کر رہا ہے آج
میرے ہاتھ سے بنا چائے کا مگ پی لیا ایک پل میں
ُاسے بعد میں ہنسی آئی زمانہ ُاسے دیکھ رہا ہے آج