خوشبوئے گل چمن میں تجھ سے ہے
روشنی انجمن میں تجھ سے ہے
میں سخنور ہوں تیرے جوبن کی
تازگی سب سخن میں تجھ سے ہے
چھوڑ جاتی میں اپنے گاؤں کو
چین میرا وطن میں تجھ سے ہے
یہ جو رونق ہے باغِ ہستی میں
ساری رونق زمن میں تجھ سے ہے
رزمِ گاہِ حیات میں اب تک
حوصلہ تیغ زن میں تجھ سے ہے
روشنی ہے مرے تعاقب میں
سوچِ الفت یہ من میں تجھ سے ہے
پھول بکھرے ہوئے ہیں راہوں میں
سبز گپھا یہ بن میں تجھ سے ہے
تیری پلکوں پہ اوس کے موتی
زندگی یہ پَون میں تجھ سے ہے
چاند تارے یہ پھیلی قَوسِ قُزَح
وشمہ دیکھو گگن میں تجھ سے ہے