میری گلیوں سے گزرتا بھی نہیں
وہ مگر دل سے اترتا بھی نہیں
کھل کے ملتا ہے سر راہ گزر
وہ تو رسواٸی سے ڈرتا بھی نہیں
ایسا رنجیدہ ہوا فرقت میں وہ
میرا شاعر تو سنورتا بھی نہیں
جانتا ہے وہ زمانے کی روش
میری الفت سے مکرتا بھی نہیں
کرچی کرچی ہوکے رہتا ہے سدا
خواب آنکھوں میں بکھرتا بھی نہیں
ڈوب جاٸے آنکھ میں وشمہ اگر
درد کا کانٹا ابھرتا بھی نہیں