✕
Poetry
Famous Poets
Allama Iqbal
Ahmed Faraz
Amjad Islam Amjad
Wasi Shah
Parveen Shakir
More Poets
Poetry Categories
Love Poetry
Sad Poetry
Friendship Poetry
Islamic Poetry
Punjabi Poetry
More Categories
Poetry SMS
Poetry Images
Tags
Poetry Videos
Featured Poets
Post your Poetry
News
Business
Mobile
Articles
Islam
Names
Health
Shop
More
WOMEN
AUTOS
ENews
Recipes
Poetries
Results
Videos
Directory
Photos
Business & Finance
Education News
Add Poetry
Home
LOVE POETRY
SAD POETRY
FAMOUS POETS
POETRY IMAGES
POETRY VIDEOS
NEWS
ARTICLES
MORE ON POETRY
Home
Urdu Poetry
Featured Poets
waseem arbi
Search
Add Poetry
Poetries by waseem arbi
لوشب راحت کی آئی ہے
لوشب راحت کی آئی ہے ، لو دن خوشیوں کا آیا ہے
ہلال عید نے بھی تو یہی مژدہ سنایا ہے
یہ میٹھی عید بھی دیکھو کہ کیسے تحفے لائی ہے
کسی کا شادماں دل ہے کسی نے درد پایا ہے
گلے ملتے ہیں روٹھے بھی ہمیںآ کر بھی مل جاؤ
تیرے راہوں میں بیٹھے ہیں اسی کو گھر بنایا ہے
کیوں ڈرتے ہو تم دنیا کی ان سچی جھوٹی باتوں سے
مجھے دیکھو بنا سوچے ہی تم سے دل لگایا ہے
نہ دو جھوٹی تسلی کہ ہو گی برسات خوشیوں کی
میرے سر پہ تو بادل اب بھی میرے غم کا چھایا ہے
گلہ تم سے نہیں کوئی نا ہی دنیا سے ناراضی
مجھے بس اس سے شکوہ ہے وہ جس نے دل بنایا ہے
امن وسیم
Copy
ہے عید کا دن اور موقع بھی
گلے لگ کے مٹا دو سارے غم،ہے عید کا دن اور موقع بھی
میرے زخموں پہ رکھ دو مرہم،ہے عید کا دن اور موقع بھی
آ دیکھوں تم کو جی بھر کر،تیری آنکھیں اور رخسار کا تل
آ سلجھاؤں تیری زلف کا خم،ہے عید کا دن اور موقع بھی
تم دھیرے سے مسکائی ہو، میرے دل کو سکون سا پہنچا ہے
کاش وقت یہیں پہ جائے تھم،ہےعید کا دن اور موقع بھی
اظہارمحبت کروں تم سے،تھی کب سے یہ حسرت دل میں میرے
آج کرتا ہوں اقرار صنم،ہے عید کا دن اور موقع بھی
اپنے شیریں لبوں کا بوسہ دو،اور آنکھوں سے اک جام بھرو
پھر پیار کی چھیڑو تم سرگم،ہے عید کا دن اور موقع بھی
کس بات کی حلدی ہے تم کو،آئے ہو ابھی بیٹھو تو سہی
نہ جانا ابھی تمہیںمیری قسم،ہے عید کا دن اور موقع بھی
تم مان لو آج اپنے دل کی بات،اور توڑ دو جگ کے رسم و رواج
ایک ہو جائیں آج تم اور ہم،ہے عید کا دن اور موقع بھی
امن وسیم
Copy
بلاوا ہو کبھی میرا
بلاوا ہو کبھی میرا تیرے در پر میرے آقا
گرا دوں تیرے قدموںمیں میں اپنا سر میرے آقا
برستی گنبد خضرا پہ اک بارش نورانی ہو
اور میں بھی ایسی بارش میں ہو جاؤں تر میرے آقا
ملاقات اجل ہو سامنے نظروں کے روضہ ہو
تو میرے واسطے کچھ ایسا چارہ کر میرے آقا
سنا ہے آپ ہر عاشق کے گھر تشریف لاتے ہیں
کبھی روشن ہو جلوے سے میرا بھی گھر میرے آقا
مرادیں پوری کر دے یوں نہ حسرت کچھ رہے دل میں
یہ جھولی میری خالی ہے تو اس کو بھر میرے آقا
امن نامی گرامی ہے مگر گمنام تھا پہلے
بنایا تو اس ذرے کو اک گوہر میرے آقا
امن وسیم
Copy
تمہیں جب کبھی ملیں فرصتیں
تمہیں جب کبھی ملیں فرصتیں میرے سر سے قرض اتار دو
میں بہت دنوں سے کنگال ہوں مجھے تھوڑے پیسے ادھار دو
کسی اور کو میرے حال پہ نہیں ترس آتا تو کیا ہوا
تمہی بکھرے کپڑے سمیٹ لو تمہی بگڑا کمرا سنوار دو
میرے درد سر کو بڑھا دیا میرے قرض خواہ کے شور نے
میرے سر کی مالش کرو ذرا میری دھڑکنوں کو قرار دو
تم سکھاؤ نئے مجھے پینترے کہ میں کھاؤں قرض بڑے بڑے
مجھے شوخ رنگوں یں رنگ دو میرے پھیکے رنگ اتار دو
تمھیں سچ میں کیسی لگی کہو میری آٹھ فٹ کی یہ کوٹھڑی
اے ون لگی!بس یہیں رہو اسے چونا کر کے نکھار دو
میرے گھر میں کونسا بیڈ بھلا کہ ہو فکر لیٹنے سونے کی
یہی مختصر سی چٹائی ہے یہیں بیٹھے رات گزار دو
امن وسیم
Copy
رات میں نے خواب دیکھا
رات میں نے خواب دیکھا
خواب میں اک عزاب دیکھا
تم کو اتنا بے تاب دیکھا
مثل ماہی بے آب دیکھا
میں نے تم کو اداس دیکھا
بے چین اور بے آس دیکھا
غموں کی چادر تھی تم نے اوڑھی
دکھوں کو تیرا لباس دیکھا
تو تپتے صحرا میں چل رہا تھا
تمہارا جوبن پگھل رہا تھا
لبوں کی خشکی تڑپ رہی تھی
اور خون جسم بھی جل رہا تھا
بجھا بجھا تھا تمہارا چہرا
اورآنکھوں میں تھا بھرا سمندر
تمہارے غم بھی تو کم نہیں تھے
بپا تھا طوفاں تمہارے اندر
پھر اچانک گھڑی وہ آئی
جو خوشیوں کا اعلان لائی
ابھی تو تھی جاں لبوں کو آئی
اور اب لبوں میں ہے جان آئی
پہلے تو یہ امید باندھی
کہ مشکل وقت اب ٹل رہا ہے
یہ کس کو معلوم تھا کہ تو تو
سرابوں کی جانب ہی چل رہا ہے
تشنگی کے پھر چھائے بادل
نظر نہ آتی تھی کوئی چھاگل
شدت پیاس نے تو آخر
کر دیا تھا تمہیں بھی پاگل
سفر کے پیمانے گھٹ رہے تھے
نہ فاصلے ہی سمٹ رہے تھے
نہ منزلوں کا پتہ تھا کوئی
نہ غم کے بادل ہی چھٹ رہے تھے
جبر کی حد ہی تو ہو گئی تھی
صبر کا پیمانہ بھر گیا تھا
تو خواب تھا یاکہ تھا حقیقت
مجھے تو حیران کر گیا تھا
امن وسیم
Copy
مجھے جس کی تمنا ہے
مجھے جس کی تمنا ہے وہ راہوں پر نہیں ملتا
ہے ڈھونڈھا جس کو برسوں سے مجھے وہ در نہیں ملتا
یہ دنیا تو ہے چھوٹی سی یہاں ملتے ہیں بچھڑے بھی
مجھے لاکھوں ملے ہیں پر میرا دلبر نہیں ملتا
بڑی مشکل سے پہنچا ہوں میں تیرے شہر میں سنگدل
میں ہر کوچے سے گزرا ہوں پہ تیرا گھر نہیں ملتا
میں سنتا ہوں کہ غیروں سے گلے لگ لگ کے ملتا ہے
بڑابے درد قاتل ہے ہمیں آ کر نہیں ملتا
تم سمجھو یا نہیں سمجھو مگر ہے کھیل قسمت کا
کبھی کھو کر بھی مل جائے کبھی پا کر نہیں ملتا
امن اس دور میں دیکھو محبت ریزہ ریزہ ہے
محبت پہ جو کٹ جائے اب ایسا سر نہیں ملتا
امن وسیم
Copy
عاشق ہوں میں تمہارا-گیت
عاشق ہوں میں تمہارا کر لو مجھے گوارا
بن ٹھن کے جا رہی ہو کس موج میں او رانی
مجھ پہ بھی آج کر دو تھوڑی سی مہربانی
نظر کرم ہی کر دو دیکھو ادھر خدارا
تم خوشبوئے چمن ہو تم رنگ انجمن ہو
تم گوہر نایاب تم ہی بہار بن ہو
تم ہو گلاب و عنبر تم ہو گگن کا تارا
تم حسن میں محبت اک تم ہو میری چاہت
تم میرے دل کا چینا تم آنکھوں کی ہو راحت
میں ہوں اگر سمندر تم ہو میرا کنارا
پوچھو نہ حال میرا تنہائیوں نے گھیرا
غم کا لگا ہے میلا دکھ درد کا ہے ڈیرا
میرا جگر چھلنی چھلنی میرا دل ہے پارا پارا
جب باغ میں تم آئے بادل امڈ کے چھائے
گانے لگی ہوا بھی اور پھول مسکرائے
میں نے بھی آج دیکھا کیا خوب تھا نظارہ
امن وسیم
Copy
تو ہک وار ی میکوں
تو ہک وار ی میکوں چا دل نال سڈیندا
تاں میں وی ایویں رس کے پرے نہ ویندا
نہ لبھدا میکوں کوئی وی نکلن دا رستہ
جے دل آپنے دی توں جیل اچ رکھیندا
جے سک ہائی ملن دی ذرا تیرے دل وچ
یا میکوں سڈیندا یاتو آپ آ ویندا
جے انصاف کرن دی جچ تیکوں ہوندی
تاں میڈی وی سنڑدا تے اپنی سنڑیندا
محبت جو سچی ہوندی تیرے دل وچ
تاں ول حال دل دا توں میکوں ہی ڈیندا
نادان غیراں دے آکھے تو لگ کے
نہ ایویں میرے سر وچ مٹیاں سٹیندا
کریندا نہ تو بے وفائی جو دلبر
امن میں نہ رو رو کے اکھیں سجیندا
امن وسیم
Copy
تم نے کب مجھ سے ملنا گوارا کیا
تم نے کب مجھ سے ملنا گوارا کیا
میں نے جب کبھی تم کو اشارہ کیا
پہلی بار ہی ہنس کر مخاطب کیا
تم نے کب یہ کرم پھر دوبارہ کیا
تیری مدح سرائی میں زلفوں کو شب
اور آنکھوں کو تیری ستارہ کیا
خود ہی چھوڑا ہمیں اس رہ عشق پر
نام بدنام بھی پھر ہمارا کیا
مجھ کو تیری وفا نے نکما کیا
بے وفائی نے مجھ کو آوارہ کیا
تیرے کہنے پہ ہی تو اے قاتل میرے
اس دنیا سے میں نے کنارہ کیا
نیند بھی ساتھ چھوڑنے لگی جب میرا
تیری یادوں کو ہی پھر سہارا کیا
روبرو میرے چشم تصور میں تم
چلو دل نے تو تیرا نظارہ کیا
امن ہمدم کو ئی جب مجھے نہ ملا
اپنےآپ میں ہی پھر گزارا کیا
امن وسیم
Copy
عمران(مرحوم)کے نام
(جگری یار کی پہلی برسی پر)
جو میرے وہم و گماں میں رہتا ہے
جانے وہ کس جہاں میں رہتا ہے
جنت الفردوس اس کی منزل ہو
دل اس دعا کی گرداں میں رہتا ہے
اس کو گزرے بھی کئی دن گزرے
پھر بھی دور رواں میں رہتا ہے
زندہ اب بھی وہ مجھ کو لگتا ہے
ذکر جو دوستاں میں رہتا ہے
خلوص اس کے نے کئی دل جیتے
وہ ہر دل مہرباں میں رہتا ہے
دن میں تو دل کو بہلا ہی لیتا ہوں
شب میں تو غم کنعاں میں رہتاہے
باہر جانے کا جس میں رستہ نہیں
دل کے خانہ نہاں میں رہتا ہے
میری باتوں میں اس کی باتیں ہیں
وہ میرے جسم و جاں میں رہتا ہے
امن وسیم
Copy
ہو میسر زمیں یا کہ زیر زمیں
ہو میسر زمیں یا کہ زیر زمیں
میں بنوں گا بس تیرے شہر کا مکیں
پھول سے بھی تو نازک ہے اے نازلیں
ہاتھ ہیں مرمریں اور بدن ہے زریں
چاند کہہ نہ سکوں چاند میں داغ ہے
میں نے دیکھی نہیں تم میں کوئی کمی
خوبیاں تجھ میں دیکھی ہیں میں نے بہت
میں کیسے کہوں تم کو صرف اک حسیں
میری یادوں کا محور تمہی ہو صنم
میری آنکھوں کی ٹھنڈک میری مہ جبیں
زندگی سے بھی زیادہ چاہوں گا تمہیں
نہ تو انکار کر بن میری ہم نشیں
تیرے اک اشارے پہ جاں وار دے
کہیں امن کے سوا کوئی ہو گا نہیں
امن وسیم
Copy
ہے زندگی سانپ اور سیڑھی
ہے زندگی سانپ اور سیڑھی سی
دو گام چلے پھر رک جائے
کبھی چلتے چلتے دوڑ پڑے
جب خوشی کی سیڑھی سامنے ہو
یہ آگے بڑھے اور سیڑھی چڑھے
کوئی غم کا سانپ اسے ڈس جائے
تو چار قدم نیچے آئے
کبھی اترتی اور کبھی چڑھتی سی
ہے زندگی سانپ اور سیڑھی سی
کبھی یوں الجھن میں پھنستی ہے
نہ روشن ہو اک نقطہ بھی
بس ہر سو گھنا اندھیرا ہو
تب کوئی دیپ جلاتی ہے
دل میں امید جگاتی ہے
پھر آگے بڑھنے کی خواہش
ہمیں سو کے قریب لے آتی ہے
اب منزل اپنے سامنے ہے
پر موت بھی اپنا منہ کھولے
ہے ڈسنے کو تیار یہاں
معلوم نہیں کیا ہو گا کب
یہ کھیل اسی کے ہاتھ میں ہے
بازی گر ہے جو قسمت کا
وہی جانتا ہے کیا ہو گا اب
نہیں زندگی کسی کی مرضی کی
ہے زندگی سانپ اور سیڑھی سی
امن وسیم
Copy
میرادل بس خدا سے دعا یہ کرے
میرادل بس خدا سے دعا یہ کرے
کوئی تم کو کبھی رسوا نہ کرے
نہ بھٹکے تیرے پاس کوئی بھی غم
کوئی خوشیاں بھی تجھ سے جدا نہ کرے
چاند تارے تیرے رہگزر جب بنیں
پھول کلیاں تیرے سر پہ چادر تنیں
حسن تیرے پہ آئے کبھی نہ زوال
تو سارے جہاں میں رہے بے مثال
تیری خوشیوں کا سورج کبھی نہ ڈھلے
شوخ و چنچل رہے تو یونہی عمر بھر
سدا بہار گلستاں میں ہو تیرا گھر
تیری معصومیت ہو یا چالاکیاں
تیرا شرمیلا پن ہو یا بے باکیاں
تیرے ہر روپ میں اک الگ پن ملے
تیرا شیریں دہن اور سنہرا بدن
تو رہے تا قیامت بس رنگ چمن
رات کو جب بھی خوابوں کی جانب چلے
چاند سنگ سنگ محافظ کی مانند چلے
غم کا سایا بھی تجھ پہ کبھی نہ پڑے
تیری باتوں کی ہو ہر طرف باز گشت
گلستاں ہو کوئی چاہے ہو کوئی دشت
نور چہرے پہ تیرے سلامت رہے
تیری شوخی ہی تیری علامت رہے
تجھے کچھ ہو کبھی یہ خدا نہ کرے
کوئی تجھ کو ہر پل چاھنے والا ملے
نہ ہی شکوے کرے نہ کرے وہ گلے
پھول بن کر تو اس کے صحن میں کھلے
وہ نچھاور کرے پیار کے سلسلے
تمہیں کسی موڑ پر بھی خفا نہ کرے
میرا دل بس خدا سے دعا یہ کرے
امن وسیم
Copy
سنو میرے غم کی کہانی سنو
سنو میرے غم کی کہانی سنو
جو بیتی وہ میری زبانی سنو
آدھی رات سر میں اٹھی کھلبلی
جو دیکھا تو فوج جوؤں کی چلی
جوئیں خون کی میری پیاسی پھریں
اورحیران و ہلکان مجھ کو کریں
لہو میرا پی پی کے موٹی ہوئیں
یونہی خواہ مخواہ میرے سر ہو گئیں
سمجھ میں نہ آتا تھا میں کیا کروں
اکیلا تھا میں اور وہ تھیں سینکڑوں
دونوں ہاتھوں سے سر کھجاتا رہا
اور ساتھ میں عقل بھی لڑاتا رہا
دنگل ہوا جوؤں سے ساری رات
جوؤں کا چلا منہ چلا میرا ہاتھ
پھر ناخن پہ رکھ رکھ کے مارا انہیں
یوں جیتا تھا میں اور ہاریں جوئیں
(بابائے مزاح جعفر زٹلی سے متاثر ہو کر)
امن وسیم
Copy
کون پھر تیرا غم بٹائے گا
کون پھر تیرا غم بٹائے گا
کون تجھ کو گلے لگائے گا
میرا ہر زخم یاد آئے گا
ایسی اک چوٹ تو بھی کھائے گا
جس طرح میرا دل دکھایا ہے
کوئی تیرا بھی دل دکھائے گا
میرے دل کاسکوں جو چھینا ہے
تو کہیں بھی سکوں نہ پائے گا
مجھ کو صحرامیں چھوڑنے والے
تو تو گلشن میں جھلس جائے گا
دل دکھانا نہیں کسی کا کبھی
کو بہ کو مجنوں بن کے گائے گا
جب تجھے وہ بھی چھوڑ جائے گی
تو اسے یہ غزل سنائے گا
امن وسیم
Copy
کہہ دو کہ یہ سب جھوٹ ہے
کہہ دو کہ
یہ سب جھوٹ ہے سب خواب ہے
بھلا یہ کس طرح ممکن
کہ جس سے پیار کرتے ہوں
اسی کو چھوڑ کر جائیں
کہ جس کے بن نہ جیتے ہوں
کوئی لمحہ کوئی بھی پل
اسی سے پھر ہمیشہ کیلیے
منہ موڑ کر جائیں
وہی تو ہے کہ جس نے پیار کا احساس
میرے دل میں جگایا تھا
مجھے جینا سکھایا تھا
اور میرےدل کے کھنڈر کو
اسی نے گھر بنایا تھا
اس نے تو ساتھ رہنے کی
اکٹھے جینے مرنے کی
بہت سی قسمیں کھائی تھیں
وہ کیسے بھول سکتا ہے
ان قسموں کو اور وعدوں کو
بھلا کیسے جلائے گا
وہ اپنے آشیانے کو
میں کیسے مان لوں اس کو
ایسا ہو ہی نہیں سکتا
وہ مجھ کو چھوڑ کر تنہا
اس دنیا سے کبھی بھی جا نہیں سکتا
کہہ دو کہ
یہ سب جھوٹ ہے سب خواب ہے
امن وسیم
Copy
خوشی خوشی جب
خوشی خوشی جب میرے ساتھ ساتھ چلتے ہیں
بہت سےلوگ ہیں جو دیکھ دیکھ جلتے ہیں
تپش ہے حسن میں ان کی شمار سے آگے
کہ ان کو دیکھ کر پتھر سے دل پگھلتے ہیں
سجے ہیں مانگ میں ان کی ستارے ایسے کہ
فلک کےتارے انہیں دیکھ کر ہی ڈھلتے ہیں
قریب آتے ہیں کچھ اس ادا سے وہ ظالم
کہ دل کے سوئے ہوئے ارماں سبھی مچلتے ہیں
ہمارے پیار نے بھر دی ہے ان میں شیرینی
وہ جب بھی بولیں تو منہ سے شہد اگلتے ہیں
ہوئی ہے جب سے ہماری منگنی ان کے ساتھ امن
ہمارے پیارے رقیب بیٹھے ہاتھ ملتے ہیں
امن وسیم
Copy
راتیں ہیں چاندنی
راتیں ہیں چاندنی جوبن پہ ہے بہار
بارش کی ہے رم جھم چمن پہ ہے نکھار
گلشن کا ہر گلاب لگے ایسا دلنشیں
دلہن کوئی جیسے کیے بیٹھی ہو سنگھار
تارے بھی مسکرانے لگے ان کو دیکھ کر
اس دلکشی پہ چاند کو آنے لگا ہے پیار
گلے ملتے ہیں سب پھول جب چلتی ہے ہوا
اک میں ہوں کہ تیرے ملنے کو بے قرار
کلیاں نہا کے اوس کے قطروں میں کھل اٹھیں
اور میں کہ تیری یاد میں بیٹھا ہوں سوگوار
شجر بھی سنگ ہوا کے ہیں محو گفتگو
پر میں خموش ہوں مجھے تیرا انتظار
بن تیرے یہ سماں خزاں ہی لگے امن
آئے گی تب بہار کراؤ گے جب دیدار
امن وسیم
Copy
لتاں توڑ ڈیساں-سرائیکی
میں تیریاں لتاں توڑ ڈیساں جے میکوں پیار کریسیں نہ
میں تیریاںاکھاں پھوڑڈیساں جے اکھاں چار کریسیں نہ
بھاویں ٹر پوسیں تو میرے نال پر ہامی وی تو بھرنی اے
تیکوں راہواں وچ میں رول ڈیساںجے تو اقرار کریسیں نہ
نہ چھلا بنڑامیکوں پایا ھئی نہ ونگ بنڑا چھنڑکایا ھئی
میں تیری گچی مروڑ ڈیساں جے گل دا ہار کریسیں نہ
اے ملاح پار پہنچا میکوں دیدار میں یار دا کرنا ہے
میں تیری کشتی بوڑ ڈیساں جے میکوں پار کریسیں نہ
میں راہواں کوں وی سجایا ہے آ ڈیکھ تو میرے گھر آ کے
تیکوں سر اکھیں تے چا گھنساں جے توں انکار کریسیں نہ
امن وسیم
Copy
نظر سے نظر تم ملا کر تو دیکھو
نظر سے نظر تم ملا کر تو دیکھو
ذرا تم نظر کو اٹھا کر تو دیکھو
نظر میری تم پہ ہے کب سے او پیارے
او جان نظر مسکرا کر تو دیکھو
نظریں بچھاؤں گا راہوں میں تیری
مجھے بھی نظر میں بٹھا کر تو دیکھو
نظر ہی نظر میں سمجھ جاؤں گا سب
نظر کی نظر کو سنا کر تو دیکھو
نظر میں اترنا ہے کتنا ہی آساں
نظر تا جگر راہ بنا کر تو دیکھو
نظر میں ہی رکھوں گا تیری نظر کو
نظر کو ذرا تم چھپا کر تو دیکھو
نظر کی نظر کو نظر نہ لگے گی
نظر کی نظر تم لگا کر تو دیکھو
فقط میں گراؤں گا نظروں سے تم کو
نظر پھیر کر دور جا کر تو دیکھو
امن وسیم
Copy
Load More
Famous Poets
Mirza Ghalib
Allama Iqbal
Ahmed Faraz
Amjad Islam Amjad
Wasi Shah
Parveen Shakir
Faiz Ahmed Faiz
Munir Niazi
Jaun Elia
Gulzar
Tahzeeb Hafi
Ali Zaryoun
View More Poets