بِالمُقابِل کبھی آئینے کے آ کر دیکھو
آئینے کو ذرا آئینہ دِکھا کر دیکھو
تم کو معلوم کیا، بِپھرے گا سمندر کتنا
درد موجوں کو ذرا اپنا سُنا کر دیکھو
میں محبت ہوں، محبت سے محبت ہے مجھے
تم محبت کو محبت سے بُلا کر دیکھو
زیست کی خوشیوں کو کر دے گی اُجاگر اِک دن
ہر خلش سِینے کی سینے سے لگا کر دیکھو
فرش ہو جاؤنگا، جُھک جاؤنگا، بِچھ جاؤنگا
تم کبھی بُھولے سے وعدہ تو وفا کر دیکھو
ناتوانی کا تقاضہ ہے، نہ اُلجُھوں تم سے
پِھر بھی“ عمران“ سے ذرا ہاتھ چُھڑا کر دیکھو