آئے جو وارثانِ جودوسخا شہر میں
تکلیف کے بنا کیا ان کو ملا شہر میں
جو فرد سہہ گیا ہے خود پر سزا شہر میں
اک پل کو وہ نہ ٹھہرا میرے پیاء شہر میں
رباط سمجھ آئے کچھ راہ نما شہرمیں
سربست لٹ گئے ہیں اس بے وفا شہر میں
تاروں میں روشنی ہے جن کی وجہ سے اب تک
دیکھی ہے ماند ان کی مَیں نے ضیاء شہر میں
کتنے شگوفے گِر کے مٹی میں دب گئے ہیں
ایسی چلی ہے ظلم کی اک دن ہوا شہر میں
آجاو چھوڑ دامن فرقہ پرستیوں کا
مل کر منائیں آج غمِ کربلا شہر میں
خوشنودئ خدا میں آنسو یہ چار دے کر
جنت وصول ہو گی غم کا صلہ شہر میں
رعنائیاں کہاں ہیں اب جعفری شہر میں
غمگین مَیں نے دیکھی بادِ صباء شہر میں
سلام شہیدانِ کرب و بلا