اب تلک یاد ہیں وہ چشم و لب و گوش مجھے
Poet: Khalid Roomi By: Khalid Roomi, Rawalpindi ساقیا ! ایسا پلا بادہ ء سر جوش مجھے
بے خودی جس سے بڑھے ، کچھ نہ رہے ہوش مجھے
جس طرف جاؤں ، سبھی لوگ کہیں دیوانہ
حسن جاناں نے بنایا ہے یوں مدہوش مجھے
بھول سکتا ہی نہیں دل کو سراپا ان کا
اب تلک یاد ہیں وہ چشم و لب و گوش مجھے
ہے وہ پہلے سا ستم اب نہ وہ بیداد کہیں
کر دیا اس نے ہے شاید کہ فراموش مجھے
مستیاں ایسی بھلا ساغر و مینا میں کہاں ؟
کر دیا جیسے تری آنکھوں نے مدہوش مجھے
چارہ گر مہر بلب بیٹھا ہے بالیں پہ مری
یاس و حرماں نے کیا ایسے ہم آغوش مجھے
تیری الفت نے خوشی کوئی نہ چھوڑی گھر میں
کر دیا عشق نے دنیا میں الم کوش مجھے
میں بروں سے بھی برا ، آپ ہیں اچھے سب سے
آئیے ! آج نیا دیجے کوئی دوش مجھے
اب تو عصیاں پہ بھی دل ناز کیا کرتا ہے
للہ الحمد ! ملا تم سا خطا پوش مجھے
کہہ گیا راز میں رومی ! وہاں کیونکر سارے
بزم میں کاش کراتا کوئی خاموش مجھے
فقیریہ ترے ہیں مری جان ہم بھی
گلے سے ترے میں لگوں گا کہ جانم
نہیں ہے سکوں تجھ سوا جان ہم بھی
رواں ہوں اسی واسطے اختتام پہ
ترا در ملے گا یقیں مان ہم بھی
تری بھی جدائ قیامت جسی ہے
نزع میں ہے سارا جہان اور ہم بھی
کہیں نہ ایسا ہو وہ لائے جدائ
بنے میزباں اور مہمان ہم بھی
کہانی حسیں تو ہے لیکن نہیں بھی
وہ کافر رہا مسلمان رہے ہم بھی
نبھا ہی گیا تھا وفاکو وہ حافظ
مرا دل ہوا بدگمان جاں ہم بھی
زِندگی جینے کی کوشش میں رہتا ہوں میں،
غَم کے موسم میں بھی خوش رہنے کی کرتا ہوں میں۔
زَخم کھا کر بھی تَبسّم کو سَنوارتا ہوں میں،
دَردِ دِل کا بھی عِلاج دِل سے ہی کرتا ہوں میں۔
وقت ظالم ہے مگر میں نہ گِلہ کرتا ہوں،
صبر کے پھول سے خوشبو بھی بِکھرتا ہوں میں۔
چاند تاروں سے جو باتیں ہوں، تو مُسکاتا ہوں،
ہر اَندھیرے میں اُجالا ہی اُبھارتا ہوں میں۔
خَواب بِکھرے ہوں تو پَلکوں پہ سَمیٹ آتا ہوں،
دِل کی ویران فَضا کو بھی سَنوارتا ہوں میں۔
کون سُنتا ہے مگر پھر بھی صَدا دیتا ہوں،
اَپنے سائے سے بھی رِشتہ نِبھاتا ہوں میں۔
دَرد کی لَوٹ میں بھی نَغمہ اُبھرتا ہے مِرا،
غَم کے دامَن میں بھی اُمید سجاتا ہوں میں۔
مظہرؔ اِس دَور میں بھی سَچ پہ قائم ہوں میں،
زِندگی جینے کی کوشَش ہی کرتا ہوں میں۔






