اب دل میں وہ پہلی سی محبت نہیں دیکھی
آنکھوں کے سمندر میں قیامت نہیں دیکھی
ذہنوں پہ ہیں چھائے ہوئے ابہام کے سائے
اور سامنے کچھ اس کی وضاحت نہیں دیکھی
تعبیر نظر آنے لگی خواب کی صورت
پر خواب میں پہلی سہ بشارت نہیں دیکھی
ہر آئینہ بے عکس ہوا جاتا ہے کیوں کہ
اس میں جو کہیں کوئی شباہت نہیں دیکھی
کیا جانے خفا ہم سے وہ کیوں رہتے ہیں اکثر
ہر چند کوئی ان میں عدادت نہیں دیکھی
گم گشتہ تعلق سہی، کچھ پاس تو رکھ لیں
پر لوگوں میں اتنی بھی مروت نہیں دیکھی
دن رات ترے عشق میں ہم غرق ہوئے ہیں
اور لب پہ کوئی حرفِ شکائت نہیں دیکھی
یہ عشق کے شعلے بھی عجب چیز ہیں وشمہ
اس دل میں وداؤں کی علامت نہیں دیکھی