اب میں تبدیل ہوتا جا رہا ہوں
ہستی اپنی بھلاتا جا رہا ہوں
تشنگی بڑھ گئی ہے اب اتنی
دل کا میں خون پیتا جا رہا ہوں
عادیِ خود نمائی ہو گیا ہوں
خود میں تحلیل ہوتا جا رہا ہوں
اس کو پرواہ تو نہیں لیکن
درد اپنا سناتا جا رہا ہوں
زندگی آخرش پہ آ پہنچی
اپنے دل کو لبھاتا جا رہا ہوں
کچھ تو وعدے وفا کرو تم بھی
میں تو سب کو نبھاتا جا رہا ہوں
کب کا سائل کو بھول بیٹھا وہ
اور میں خود کو رلاتا جا رہا ہوں