اب کسی سے پھر وفاؤں کی امیدیں کیا کروں
چھوڑ جاتا ہے مرا جب اپنا ہی سایا مجھے
نفرتوں کی اپنی دنیا سے بغاوت چھوڑ دو
کہہ گیا ہے آج مجھ کو میرا ماں جایا مجھے
کون جانے کب ختم ہوں زندگی کی سازشیں
جس کو اپنا جانتی تھی اس نے تڑپا یا مجھے
ہر کسی نے اپنے اپنے ظرف تک پایا مجھے
کیسے وہ لوٹائے گا میرا سرمایا مجھے
کل تلک جو سیکھتا تھا خود رموزِ شاعری
آج میرے در پہ آ کے اس نے سمجھایا مجھے
چھوڑ آئی منزلوں کو اب میں وشمہ کیا کروں
وہ بھی اب افسردہ ہوگا جس نے ٹھکرایا مجھے
میرا ہر اک شعر میرے عہد کی آواز ہے
کھو دیا تھا میں نے جس کو اس نے ہے پایا مجھے
رنج و غم کی اس زمیں پر دونوں ہی رسوا ہوئے
را س اب آتا نہیں یہ سحر کا سایا مجھے