اب یہی کام کر رہا ہوں میں
سب پہ الزام دھر رہا ہوں میں
جانِ من، تم بھی کیا ہو بلکہ اب
ہر کسی سے مکر رہا ہوں میں
دشتِ خلوت ہے دھوپ وحشت کی
رہِ فنا سے گزر رہا ہوں میں
اب فقط رات دن کی گنتی ہے
انگلیوں پر بسر رہا ہوں میں
ایک زنداں ہے میرا حجرہِ ذات
دم گُھٹے سانس بھر رہا ہوں میں
بہہ کہ حسرت کی موجِ پیچاں سے
بحرِ افسوں میں تَر رہا ہوں میں
ایک وحشت ہے درمیانِ ہجوم
جانیے کس سے ڈر رہا ہوں میں
اب مجھے قتل کر دے اے قاتل
زندگی دان کر رہا ہوں میں
وہی معمولِ زندگی اپنا
سب کو ناراض کر رہا ہوں میں
جی رہی ہے وہ زندگی اپنی
ایک اِک لمحہ مر رہا ہوں میں