اَبر جب ٹوٹ کے برسا تو بہت اچھا لگا
کھلِ اُٹھا پھول سا چہرہ تو بہت اچھا لگا
چند لمحے کو سہی ، آج کئی سال کے بعد
ہم نے جب چاند کو دیکھا تو بہت اچھا لگا
اَ نکہی ، اَن سنی ، بھو لی ہوئی اک شام کا رنگ
چہرہء یار پہ نکھرا تو بہت اچھا لگا
بے رُخی خون رُولاتی رہی ، پھر بھی لیکن
وہ مجھے دیکھ کے ِٹھٹکا تو بہت اچھا لگا
کچھ دبے لفظ سہی پر مجھے کھو دینے کا دکھ
اُسکی ہر بات میں جھلکا تو بہت اچھا لگا
مہرباں ، راحتِ جاں ہونٹ مرِے زخموں پر
وقت نے پیار سے رکھا تو بہت اچھا لگا
جب سرِ بزم لگی ٹھیس تو شیشہ دل کا
بے صداَ ٹوٹ کے بکھرا تو بہت اچھا لگا
اب بھی اے دوست مرِے درد کے رخساروں پر
کوئی آ نسو ، کبھی ڈھلکا تو بہت اچھا لگا