اسے تو اپنے ہی مصروف کام پر رکھا
بھروسہ میں نے مکمل غلام پر رکھا
سنا چکے ہیں سبھی اپنی شاعری لیکن
عدو مرے نے مرا نام اختتام پر رکھا
مرے تو درد کی حدت مزید بڑھ گئی ہے
یہ ہاتھ اپنا میں نے جب مسام پر رکھا
دکھانا یار کو تھا اس لیے گیا ہوں مے خانے
نہیں میں پیتا مگر خود کو جام پر رکھا
کوئی بھی کام نہیں آتا ڈھنگ سے تھا مجھے
غزل سے ذوق تھا کتیہ کلام پر رکھا
کبھی بھی سوچا نہیں ہے میں نے برا ان کا
تھا رشتہ ایسا اسے ا حترام پر رکھا
تھا ہر طرف ہی اندھیرا یہ روشنی کہاں تھی
چراغ صبح کو دیوار شام پر رکھا
تری نگاہ کو آنکھیں مری تو ترس گئیں
خوشی یہی ہے مجھے التزام پر رکھا
مری بساط سے بڑھ کر عطا کیا ہے رزق
خدا نے مجھ کو تو اعلی مقام پر رکھا
امیر لوگ تجارے عجیب کرتے ہیں
جفا کی آڑ میں کارِ دوام پر رکھا
ملاپ اپنا کبھی ہونا ہی نہیں شہزاد
یہ رابطہ تھا ہی اتنا کہ دام پر رکھا