دل اگر اُس نے توڑ دیا تو کیوں کروں اعتراض میں ہر خط اگر مرا موڑ دیا تو کیوں کروں اعتراض میں میں نے خود ہی ہر فصیلہ اُس پے چھوڑ رکھا تھا نہال اُس نے مجھے ہی چھوڑ دیا تو کیوں کروں اعتراض میں