وہ پھول لوٹانے آیا ہوں
جو زیست کی ویراں راہوں میں
تری سانسوں نے مہکائے تھے
سب پھول ہیں خوشبو سے خالی
سب پھول رنگوں کے فریادی
نہ تیرے لبوں پہ کلیاں ہیں
نہ میری نگاہوں میں شوخی
وہ بھولی بسری امیدیں
جو شب کی تنہا ساعتوں میں
ناگاہ بھڑک کر آنکھوں کو
کچھ خواب دکھایا کرتیں تھیں
وہ امیدیں اب خاک ہوئیں
سب بیتی باتیں راکھ ہوئیں
یہ سچ ہے پہلی چاہت سے
ارماں نظر کو موڑ چکے
جن راہوں پہ ہم ساتھ چلے
وہ راہیں کب کی چھوڑ چکے
یہ سچ کہ جدآئ کے لمحے
کچھ ہم پہ گراں نہ گزرے ہیں
پر سوچ رہا ہوں جانے کیوں
ہم آج بھی بکھرے بکھرے ہیں