ان کے کوچے سے ہم یوں نکلے
جیسے ساغر سے کوئی پیاسا نکلے
شباب حسن کمال ہے وہ
غرور وہ گلستاں کا توڑ نکلے
ہوا چلی تو اک نشہ سا چھا گیا
خیال ان کے سوز سماں نکلے
بے کیف تمنا ابھر آئی
جب آنچل کو وہ لہرا نکلے
چلے تھے ہم نئ محفل سجائے
وہ صحرا سے بھی ویراں نکلے
اس نے کچھ کہنا تھا شاید
پر وہ آنکھوں کی زباں نکلے
ہر لفظ میرے لیئے دھنک بن گیا
کچھ یاد نہں جو وہ کہ نکلے
ایسی کھوئی ہوں خودی میں اپنی نور
جیسے موج کشتی کو بہا نکلے