اور کچھ بڑھ گییٔ ویرانیٔ دل تیرے بعد
میں نے لکھی ہے پھر اِک تازہ غزل تیرے بعد
اس قدر بڑھتی گیٔ شدتِ احساس تو پھر
میں تراشوں گی کیٔ تاج محل تیرے بعد
شہرِ دِل اب کے ہوا بانجھ رُتوں کا مسکن
ایسا مرُجھایا مِرے دِل کا کنول تیرے بعد
تو تو بس تو ہے ، تیرے جیسا کویٔ اور کہاں ؟
مل نہ پاۓ گا کویٔ تیرا بدل تیرے بعد
تجھ سے بچھڑے تو یہ احساس ہوا شدت سے
زندگی اب نہیں پاۓ گی سنبھل تیرے بعد
صرف یہ سوچ کے،کانٹے ہی اُگیں گے اس میں
میں نے بویٔ نہیں خوابوں کی فصل تیرے بعد
زندگی روٹھ گیٔ مجھ سے کچھ ایسے عذرا
ڈھونڈتی مجھ کو پھرے جیسے اجل تیرے بعد