اُس دل نشیں نے اُس مہہ جبیں نے
میری جان لے لی اُس کی ہنسی نے
نہ ہو سکا تھا جیسا آج ہو گیا ہے ویسا
کیا کام کر دِکھایا اُس کی سادگی نے
نہ پوچھ کیا لطف آیا نظروں نے جب تیر چلایا
دل و جگر گھائل ہی پایا نظروں کی تیرگی نے
نین نشیلے چال شرابی ہونٹ رسیلے گال گلابی
واہ کیا حُسن پایا کوہ کاف کی پری نے
چہرہ تھا روشن ایسے چودھویں کا چاند ہو جیسے
چاند میں اک ہالہ بنایا اُس کی تازگی نے
خواب ہو کسی شاعر کا جیسے میرا محبوب ہے ایسے
میری شاعری کا چمکایا اُس کی عاشقی نے
یہ دل اُس کا دیوانہ ہوا خود سے بیگانہ ہوا
مجھے اپنی لو میں جلایا اس شمع کی عاجزی نے
دل اُس نے ہے نام کیا ہم بھی سب قربان کیا
عاجز کا سب کچھ لُٹایا اُس کی عاشقی نے