اک بار اگر تم اشارہ کر دیتے
ہم اپنا دل تمہارا کر دیتے
باغ میں کتنے پھول لگے تھے
تم آتے تو وہ باغ تمہارا کر دیتے
میری چوڑیوں کی کھنک سنی ہو گئی
نظر آتے تو وہ ہاتھ تمہارا کر دیتے
سرد رات کے پہروں میں کیوں ُاداس ہو جاناں
تم کہتے تو چاندی کو تمہارا کر دیتے
یہ صبح کا سورج کیسے نکل رہا ہے
میری زلفوں پے تم اپنا شانا کر دیتے
یہ باتیں خواب ہیں کہ خیالی ہیں
تم ہوتے اگر ساتھ تو ہم حیقیقت کر دیتے