اک سمندر کی طرح اس دل کی حالت کیا ہوئی
اس کی گہرائی سے رغبت اور محبت کیا ہوئی
رہ گئے تنہا ہمارے خواب ہم تنہا ہوئے
ہم سے اس دل کی عمارت میں عبادت کیا ہوئی
تو بھی مجھ سے یک بہ یک نا آشنا سا ہوگیا
اپنے چہرے کی خوشی میری ندامت کیا ہوئی
اک مسیحا کی محبت کر گئی گھائل ہمیں
دل میں چاہت کی ہمارے یہ تمازت کیا ہوئی
موت کے منظر کو ہم نے رکھ دیا قرطاس پر
زندگی کی دوڑ میں تھوڑی بصیرت کیا ہوئی
لٹ گیا دل میں سجا چاہت کا میلا یک بہ یک
اس محبت میں محبت سے شرارت کیا ہوئی
رقص کرنے لگ پڑیں چاروں طرف رسوائیاں
ہم سے دنیا کے دریچوں میں بغاوت کیا ہوئی
عشق کا شعلہ جواں ہوتے ہی دل بھی جل اُٹھا
ہم سے رنج و غم کی دنیا میں تجارت کیا ہوئی